اپنا شوق پورا کرنے کا نام دین نہیں
حضرت ڈاکٹر عبد الحی صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایک بات فرمایا کرتے تھے یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے ۔ فرماتے تھے کہ بھائی! اپنا شوق پورا کرنے کا نام دین نہیں بلکہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا نام دین ہے۔ یہ دیکھو کہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس وقت کا کیا تقاضا ہے؟ بس! اس تقاضے کو پورا کرو، اس کا نام دین ہے اس کا نام دین نہیں کہ مجھے فلاں چیز کا شوق ہو گیا ہے، اس شوق کو پورا کر رہا ہوں۔ مثلاً کسی کو اس بات کا شوق ہو گیا کہ میں صف اول میں نماز پڑھوں، کسی کو اس بات کا شوق ہو گیا کہ میں جہاد پر جائوں، کسی کو اس بات کا شوق ہو گیا کہ میں تبلیغ ودعوت کے کام میں نکلوں، اگرچہ یہ سب کام دین کے ہیں اور باعث اجر وثواب ہیں لیکن یہ دیکھو کہ اس وقت کا تقاضا کیا ہے مثلاً گھر کے اندروالدین بیمار ہیں اور انہیں تمہاری خدمت کی ضرورت ہے لیکن تمہیں تو اس بات کا شوق لگا ہوا ہے کہ صف اول میں جاکر جماعت سے نماز پڑھوں اور والدین اتنے بیمار ہیں کہ حرکت کرنے کے قابل نہیں، اب اس وقت تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقاضا یہ ہے کہ صف اول کی نماز کو چھوڑ دو اور والدین کی خدمت انجام دو اور ان کیساتھ حسن سلوک کرو اور گھر کے اندر نماز تنہا پڑھ لواب اگر اس وقت تم نے والدین کو اس حال میں چھوڑ دیا کہ وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں اور تم اپنا شوق پورا کرنے کیلئے مسجد میں چلے گئے اور صف اول میں جاکر شامل ہو گئے تو یہ دین کی اتباع نہ ہوئی بلکہ اپنا شوق پورا کرنا ہوا۔(قندیل شاہد ڈیرہ غازیخان)
ماں کی خدمت
بنی اسرائیل کا ایک یتیم بچہ ہر کام اپنی والدہ سے پوچھ کر ان کی مرضی کے مطابق کیا کرتا تھا۔ اس نے ایک خوبصورت گائے پالی ہوئی تھی اور وہ ہر وقت اس کی دیکھ بھال میں مصروف رہتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک فرشتہ انسانی شکل میں اس بچے کے پاس آیا اور گائے خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ بچے نے قیمت پوچھی تو فرشتے نے قیمت بتائی۔ جب بچے نے ماں کو اطلاع دی تو اس نے اجازت دی کہ اس قیمت پر بیچ دینا لیکن فرشتہ ہر بار قیمت بڑھاتا رہا۔ لڑکا کہتا کہ میری ماں نے اس سے کم قیمت بتائی تھی۔ میں ماں کے کہے بغیر زیادہ قیمت پر نہیں بیچوں گا۔ فرشتے نے کہا کہ تم بڑے نیک اور خوش نصیب ہو کہ ہر کام اپنی والدہ سے پوچھ کر کرتے ہو۔ چند دن بعد تمہارے پاس کچھ لوگ اس گائے کو خریدنے آئیں گے تو تم اس گائے کی خوب زیادہ قیمت لگانا۔ دوسری طرف بنی اسرائیل میں ایک آدمی کے قتل کا واقعہ پیش آیا اور انہیں جس گائے کی قربانی کا حکم ملا وہ اسی بچے کی گائے تھی چنانچہ بنی اسرائیل کے لوگ جب اس بچے سے گائے خریدنے آئے تو اس بچے نے کہا اس گائے کی قیمت اس کے وزن کے برابر سونا ادا کرنا ہے چنانچہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے اتنی بھاری قیمت ادا کر کے گائے خرید لی۔ بچو ہماری بڑی دینی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس بچے کو یہ دولت والدین کے ادب اور ان کی بات ماننے کی وجہ سے ملی۔ اس سے معلوم ہوا والدین کی خدمت و ادب کا اچھا بدلہ اس دنیا میں بھی دیا جاتا ہے اور آخرت میں بھی۔اس لئے ہم پر ضروری ہے کہ دل سے والدین کا احترام کریں اور ان کا کہا مانیں اور خوب احتیاط کریں کہ کسی طرح ان کا دل نہ دکھے اور ان کی خوب خدمت کریں۔(آفرین شاہد، ڈیرہ غازی خان)
خوش نصیب
-1 میں نے اللہ سے طاقت مانگی تاکہ کارنامہ انجام دے سکوں مگر اس نے مجھے کمزوری دی تاکہ فرمانبرداری سیکھ سکوں۔
-2 میں نے خداوند تعالیٰ سے دولت مانگی تاکہ خوشی میسر ہو مگر اس نے مجھے غربت دی تاکہ غریبوں کے دکھ درد کو سمجھ سکوں۔
-3 میں نے اس رب کریم سے ساری چیزیں مانگیں تاکہ زندگی کا لطف اٹھا سکوں مگر اس نے مجھے زندگی عطا کی تاکہ سب چیزوں کو حاصل کر سکوں۔(آفرین شاہد ، ڈیرہ غازیخان)
تین چیزیں
ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مجلس میں چاروں جانثاروں یعنی خلفائے راشدین کے ساتھ تشریف فرما تھے ایسے میں آپ نے فرمایا۔”مجھے دنیا میں تین چیزیں سب سے زیادہ محبوب ہیں ۔ خوشبو، نیک بیوی اور نماز۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی۔ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ کہا: مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کی طرف دیکھنا، اپنا مال آپ کی مرضی کے مطابق خرچ کرنا اور یہ کہ میری بیٹی آپ کے نکاح میں ہو۔
اب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی ”اے صدیق رضی اللہ عنہ ! آپ رضی اللہ عنہ نے سچ کہا، مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں۔ امر بالمعروف (نیکی کا حکم کرنا) نہی عن المنکر (یعنی برائی سے روکنا )اور پرانا کپڑا۔
یہ سن کر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کی : ”اے عمر رضی اللہ عنہ آپ نے سچ کہا، مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں بھوکوں کوکھانا کھلانا، ننگوں کو کپڑا پہنانا اور قرآن کی تلاوت کرنا۔
یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ”اے عثمان رضی اللہ عنہ !آپ نے سچ کہا: مجھے بھی تین چیزیں محبوب ہیں، مہمان کی خدمت کرنا، گرمی کا روزہ رکھنا اور دشمن پر تلوار چلانا
اتنے میں حضرت جبرائیل تشریف لے آئے اور عرض کیا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اگر میں دنیا والوں میں سے ہوتا تو مجھے یہ تین چیزیں محبوب ہوتیں، بھٹکے ہوئوں کو راستہ دکھانا، بال بچوں والے غریب کی مدد کرنا اور غریب عبادت گزار لوگوں سے محبت کرنا۔ ”اور اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں، مجھے بھی اپنے بندوں کی تین چیزیں محبوب ہیں طاقت کے مطابق خرچ کرنا(یعنی صدقہ کرنا، جہاد میں خرچ کرنا) اپنے گناہوں پر رونا اور فاقے کی حالت میں صبر کرنا۔(ہمشیرہ محمد اکمل فاروق)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں